کیا مسلمان بھی شرک کرسکتا ہے؟!
جمع، ترتیب و اضافہ جات: طارق علی بروہی
مصدر: عقیدۂ اہل سنت والجماعت قرآن وسنت اور فہم سلف صالحین کی روشنی میں از ڈاکٹر مرتضی بن بخش حفظہ اللہ(شرک کا بیان)
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
آیات ِقرآنی
1- ﴿وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ ﴾ (یوسف: 106)
(اکثر لوگ اللہ تعالی پر ایمان نہیں لاتے مگر اس حال میں کہ وہ شرک بھی کرتے ہیں)
2- ﴿اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَهُمْ مُّهْتَدُوْنَ﴾ (الانعام: 82)
(جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان میں ظلم کی ملاوٹ نہیں کی تو ایسے ہی لوگوں کے لئے امن ہے اور یہی ہدایت یافتہ ہیں)
’’عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ { الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ } شَقَّ ذَلِكَ عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالُوا أَيُّنَا لَمْ يَلْبِسْ إِيمَانَهُ بِظُلْمٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ لَيْسَ بِذَاكَ أَلَا تَسْمَعُ إِلَى قَوْلِ لُقْمَانَ لِابْنِهِ { إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ }‘‘
[بخاری 4403 ، مسلم 342]
(عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب یہ آیت نازل ہوئی تو یہ بات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بہت شاق گزری اور فرمایا کون ہے ہم میں سے جس سے کبھی نہ کبھی ظلم نہیں ہوجاتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس سے عام ظلم مراد نہیں۔ کیا تم نےنہیں سنا کہ جولقمان علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنے بیٹے سے فرمایا : بےشک شرک سب سے بڑا ظلم ہے)۔
لہذا اس سے شرک مراد ہے۔
3- مومنین کی صفات سورۂ مومنون میں ذکر ہوئیں:
﴿اِنَّ الَّذِيْنَ هُمْ مِّنْ خَشْـيَةِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَ، وَالَّذِيْنَ هُمْ بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُوْنَ، وَالَّذِيْنَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لَا يُشْرِكُوْنَ، وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ، اُولٰۗىِٕكَ يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَــيْرٰتِ وَهُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ﴾(المؤمنون: 57-61)
(وہ مومن لوگ اپنے رب کی خشیت سے ڈرے رہتے ہیں۔ اور جو اپنے رب کی آیات پر ایمان لاتے ہیں۔ اور جو اپنے رب کے ساتھ شرک نہیں کرتے۔ اور جو وہ اللہ کی راہ میں دیتے ہیں سو دیتے ہیں پھر بھی ان کے دل ڈر رہے ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے رب کی جانب لوٹ کرجانا ہے۔ یہی لوگ نیکیوں کی طرف دوڑنے والے اور اس کے لئے سبقت لے جانے والے ہیں)
یعنی ان ایمانی صفات کے باوجود بھی شرک ہوسکتا ہے جس سے وہ بچتے ہیں۔
4- عبادالرحمن (رحمٰن کے بندوں) کے اوصاف سورۂ فرقان میں بیان ہوئے:
﴿وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَي الْاَرْضِ هَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا، وَالَّذِيْنَ يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّقِيَامًا، وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ڰ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا، اِنَّهَا سَاۗءَتْ مُسْتَــقَرًّا وَّمُقَامًا، وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا، وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا، يُّضٰعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَيَخْلُدْ فِيْهٖ مُهَانًا﴾ (الفرقان: 63-69)
(اور رحمٰن کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں، اور جو وہ اپنے رب کے آگے سجدے کرکے اور (عجز وادب سے) کھڑے رہ کر راتیں بسر کرتے ہیں، اور جو دعاء مانگتے رہتے ہیں کہ اے رب جہنم کے عذاب کو ہم سے دور رکھنا کہ اس کا عذاب بڑی تکلیف کی چیز ہے، اور دوزخ ٹھہرنے اور رہنے کی بہت بری جگہ ہے، اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بےجا اُڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں بلکہ اعتدال کے ساتھ۔ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم، اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور جس جان کو مار ڈالنا اللہ نے حرام کیا ہے اس کو قتل نہیں کرتے مگر جائز طریق پر (یعنی شریعت کے مطابق) اور زنا نہیں کرتے۔ اور جو یہ کام کرے گا سخت گناہ میں مبتلا ہوگا، قیامت کے دن اس کو دوگنا عذاب ہوگا اور ذلت وخواری سے ہمیشہ اس میں رہے گا)
یعنی ان ایمانی صفات کے باوجود غیراللہ کو پکارنے کا شرک ہوسکتا ہے جس سے یہ رحمٰن کے بندے پرہیز کرتے ہیں۔
5- ﴿وَلَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ وَاِنَّهٗ لَفِسْقٌ ۭوَاِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ اِلٰٓي اَوْلِيٰۗـــِٕــهِمْ لِيُجَادِلُوْكُمْ ۚ وَاِنْ اَطَعْتُمُوْهُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ﴾ (الانعام: 121)
(اور جس چیز پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے مت کھاؤ کہ اس کا کھانا گناہ ہے اور شیطان (لوگ) اپنے رفیقوں کے دلوں میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم لوگ ان کے کہے پر چلے تو بےشک تم بھی مشرک ہوئے)
یعنی مشرکوں کے شرکیہ عقائد جیسے غیراللہ کی نذرونیاز میں موافقت کرنے پر ایک مسلمان بھی مشرک ہوسکتا ہے۔
6- ﴿اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــهًا وَّاحِدًا ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭسُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ﴾ (التوبۃ: 31)
(انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے علاوہ اپنا رب بنارکھا ہے اور عیسی بن مریم کو بھی۔ حالانکہ انہیں تو یہی حکم دیاگیا تھا کہ ایک معبود (اللہ) کی عبادت کریں، جس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں، اور وہ پاک ہے ہر اس چیز سے جسے یہ اس کا شریک بناتے ہیں)
حدیث: ’’عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي عُنُقِي صَلِيبٌ مِنْ ذَهَبٍ فَقَالَ يَا عَدِيُّ اطْرَحْ عَنْكَ هَذَا الْوَثَنَ وَسَمِعْتُهُ يَقْرَأُ فِي سُورَةِ بَرَاءَةٌ { اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ } قَالَ أَمَا إِنَّهُمْ لَمْ يَكُونُوا يَعْبُدُونَهُمْ وَلَكِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا أَحَلُّوا لَهُمْ شَيْئًا اسْتَحَلُّوهُ وَإِذَا حَرَّمُوا عَلَيْهِمْ شَيْئًا حَرَّمُوهُ‘‘
[صحیح ترمذی 3095 میں شیخ البانی نے حسن کہا ہے، سلسلہ صحیحہ میں 7/865 اور 861]
(اس آیت کی تفسیر میں عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی مشہور حدیث ہے کہ فرمایا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور میرے گلے میں اس وقت ایک سونے کی صلیب تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے عدی اس وثن کو اپنے گلے سے نکال پھینکو۔ اور میں نے سنا کہ آپ سورۂ توبہ کی یہی آیت تلاوت فرمارہے تھے کہ (انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اپنا رب بنالیا) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ ان کی عبادت تو نہیں کرتے تھے لیکن وہ جس (حرام کردہ چیز) کو حلال کردیتے وہ اسے حلال بنالیتے، اور جس (حلال کردہ چیز) کو حرام بنادیتے وہ اسے حرام کردیتے۔ ایک روایت میں ہے کہ عدی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم تو ان کی عبادت نہیں کرتے تھے یا انہیں رب نہیں بنایا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ: کیا وہ کسی حلال کو حرام کرتے یا حرام کو حلال تو تم اس میں ان کی پیروی نہ کرتے تھے، فرمایا: ہاں، کہا یہی تو ان کو رب بنانا ہے، یا یہی تو ان کی عبادت کرنا ہوا)۔
7- ﴿يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا جَاۗءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ يُبَايِعْنَكَ عَلٰٓي اَنْ لَّا يُشْرِكْنَ بِاللّٰهِ شَـيْـــــًٔــا وَّلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِيْنَ وَلَا يَقْتُلْنَ اَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَاْتِيْنَ بِبُهْتَانٍ يَّفْتَرِيْنَهٗ بَيْنَ اَيْدِيْهِنَّ وَاَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِيْنَكَ فِيْ مَعْرُوْفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ﴾ (الممتحنہ: 12)
(اےنبی! جب تمہارے پاس مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کو آئیں کہ اللہ کے ساتھ نہ شرک کریں گی نہ چوری کریں گی نہ بدکاری کریں گی نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی نہ اپنے ہاتھ پاؤں میں کوئی بہتان باندھ لائیں گی اور نہ نیک کاموں میں تمہاری نافرمانی کریں گی تو ان سے بیعت لے لو اور ان کے لئےالله سے بخشش مانگو۔ بےشک الله تعالی بخشنے والا مہربان ہے)
یعنی اللہ تعالی نے انہیں مومن عورتیں کہا اس کے باوجود ان سے شرک (جو کہ ممکن ہے) نہ کرنے کی بیعت لی جائے۔
8- سورۂ لقمان میں لقمان علیہ الصلاۃ والسلام کی اپنے بیٹے کو نصیحت :
﴿وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِهٖ وَهُوَ يَعِظُهٗ يٰبُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللّٰهِ ڼ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ ﴾ (لقمان: 13)
(اور جب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا جبکہ وہ اسے وعظ ونصیحت کررہے تھے، اے پیارے بیٹے اللہ تعالی کے ساتھ شرک نہ کرنا، بے شک شرک تو بہت بڑا اور بھاری ظلم ہے)
حالانکہ ان کے بیٹے مسلمان تھے، اسی قسم کی وصیت یعقوب علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنی وفات کے وقت اپنے بیٹوں کو فرمائی :
﴿اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاۗءَ اِذْ حَضَرَ يَعْقُوْبَ الْمَوْتُ ۙ اِذْ قَالَ لِبَنِيْهِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْۢ بَعْدِيْ ۭ قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَاِلٰهَ اٰبَاۗىِٕكَ اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ اِلٰــهًا وَّاحِدًا ښ وَّنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ﴾ (البقرۃ: 133)
(بھلا جس وقت یعقوب وفات پانے لگے تو تم اس وقت موجود تھے، جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے، تو انہوں نے کہا کہ آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحاق کے معبود (اللہ) کی عبادت کریں گے جو معبود یکتا ہے اور ہم اُسی کے حکم بردار ہیں)
9- سورۂ کہف میں اصحابِ کہف ایمان لانے کے باوجود جانتے ہیں کہ غیراللہ کوپکارنے کا شرک ہوسکتا ہے جس سے ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں:
﴿وَرَبَطْنَا عَلٰي قُلُوْبِهِمْ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَا۟ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِلٰـهًا لَّقَدْ قُلْنَآ اِذًا شَطَطًا، هٰٓؤُلَاۗءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اٰلِهَةً ۭ لَوْلَا يَاْتُوْنَ عَلَيْهِمْ بِسُلْطٰنٍۢ بَيِّنٍ ۭ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا﴾ (الکھف: 14-15)
(اور ان کے دلوں کو مربوط (یعنی مضبوط) کردیا۔ جب وہ (اُٹھ) کھڑے ہوئے تو کہنے لگے کہ ہمارا رب تو وہی رب ہے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔ ہم اس کے سوا کسی معبود کو نہ پکاریں گے (اگر ایسا کیا) تو اس وقت ہم نے بعید از عقل بات کہی، ان ہماری قوم کے لوگوں نے اس کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں۔ بھلا یہ ان (کو پکارنے) پر کوئی کھلی دلیل کیوں نہیں لاتے۔ تو اس سے زیادہ کون ظالم ہے جو اللہ تعالی پر جھوٹ افتراء کرے)
10- ﴿ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا ۭ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ﴾ (النور: 55)
(جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو زمین میں خلافت عطاء فرمائے گا جیسا ان سے پہلے لوگوں کو خلافت دی تھی اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے مستحکم وپائیدار (نفاذ شریعت) کرے گا اور خوف کے بعد (بدامنی کو ختم کرکے) ان کو امن بخشے گا۔ (بشرطیکہ) وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے لوگ بدکردار ہیں)
ایمان والے اور عمل صالح کرنے والوں کو مخاطب کیا جارہا ہے کہ وہ اس کے باوجود میرے ساتھ شرک نہ کریں تو انہی یہ نعمتیں میسر ہوں گی جس کے لئے آج تمام دینی وغیر دینی افراد وجماعتیں سرگرداں ہیں۔
- ِ مبارکہ
1- امام بخاری نے کتاب الفتن میں باب باندھا ہے کہ’’بَاب تَغْيِيرِ الزَّمَانِ حَتَّى تُعْبَدَ الْأَوْثَانُ‘‘(زمانہ بدل جائے گا یہاں تک کہ عرب تک میں لوگ بتوں کی عبادت شروع کردیں گے) اس کے تحت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان فرمائی حدیث نمبر 6583:
’’أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَضْطَرِبَ أَلَيَاتُ نِسَاءِ دَوْسٍ عَلَى ذِي الْخَلَصَةِ وَذُو الْخَلَصَةِ طَاغِيَةُ دَوْسٍ الَّتِي كَانُوا يَعْبُدُونَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ ‘‘
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ قبیلۂ دوس کی عورتیں ذوالخلصہ (بت) کے آگے کولھے نہ مٹکائے (جیسے ہندؤوں کا بھجن ہوتا ہے) اور ذوالخلصہ قبیلۂ دوس کا بت تھا جسے وہ جاہلیت میں پوجا کرتے تھے)۔
اور صحیح مسلم 7482 میں بھی یہی حدیث ہے۔
2- اور اسی صحیح مسلم میں مندرجہ بالا حدیث کے بعد والی حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’لاَ يَذْهَبُ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ حَتَّى تُعْبَدَ اللاَّتُ وَالْعُزَّى‘‘
(دن رات ختم نہیں ہوں گے (یعنی قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی) یہاں تک کہ (عرب میں) لات اور عزی پھر نہ پوجے جائیں)۔
3- صحیح مسلم حدیث 282 :
’’الْمَعْرُورُ بْنِ سُوَيْدٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- أَنَّهُ قَالَ « أَتَانِى جِبْرِيلُ – عَلَيْهِ السَّلاَمُ – فَبَشَّرَنِى أَنَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِكَ لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ ». قُلْتُ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ. قَالَ « وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ »‘‘
(معرور بن سوید فرماتے ہیں کہ میں نےابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرتے ہوئے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جبریل علیہ الصلاۃ والسلام آئے اور یہ خوشخبری دی کہ آپ کی امت میں سے (یعنی مسلمان) جو اس حال میں فوت ہو کہ وہ اللہ تعالی کے ساتھ شرک نہ کرتا تھا تو وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا، ابو ذر فرماتے ہیں میں نے کہا اگرچہ وہ زنا اور چوری (جیسے کبیرہ گناہ) کرچکا ہو، فرمایا ہاں اگرچہ اس سے زنا اور چوری سرزد ہوگئی ہو)۔
4- صحیح مسلم حدیث 512 :
’’لِكُلِّ نَبِىٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ فَتَعَجَّلَ كُلُّ نَبِىٍّ دَعْوَتَهُ وَإِنِّى اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِى شَفَاعَةً لأُمَّتِى يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَهِىَ نَائِلَةٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِى لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا‘‘
(ہر نبی کی ایک دعاء مستجاب (قبول ہونے والی دعاء) ہوتی ہے۔ ہر نبی نے اپنی دعاء مانگنے میں اسی دنیا میں جلدی فرمادی، لیکن میں نے اپنے اس دعاء کے موقعے کو محفوظ کرلیا تاکہ اس کے ذریعہ بروزقیامت اپنی امت کی شفاعت کرو۔ اور یہ ان شاء اللہ ہر اس شخص کو پہنچے گی (فائدہ دے گی) جو میری امت میں سے (یعنی مسلمان) اس حال میں فوت ہوکہ وہ اللہ تعالی کے ساتھ شرک نہ کرتا ہو)۔
5- سنن ابی داود 3710 اور صحیح ترمذی 4252 میں شیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے :
ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي بِالْمُشْرِكِينَ وَحَتَّى تَعْبُدَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي الْأَوْثَان‘‘
(قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک میری امت کے کچھ قبائل مشرکین سے نہ جاملیں اور یہاں تک کہ وہ اوثان (بتوں/مزاروں) کی عبادت نہ شروع کردیں)۔
6- صحیح بخاری 3189 ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ فرماتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے کہ:
’’لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ فَقُولُوا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُه‘‘
(مجھے غلو کرتے ہوئے میرے درجے سے اس طرح بڑھا چڑھا کر بیان نہ کرنا جیسا کہ نصاریٰ نے عیسی ابن مریم i کے ساتھ کیا، بلکہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی ہوں تو مجھے بس اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہنا)۔
نصاریٰ اپنے دور میں مسلمان تھے مگر اپنے رسول کی محبت میں غلو نے انہیں شرک میں مبتلا کردیا کہ ان کا درجہ بندگی سے بڑھا کر الوہیت تک پہنچا دیا تو مسلمان ہونے کے باوجود وہ مشرک ہوگئے، اور اگر یہی حرکت امت مسلمہ بھی کرے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا حکم بھی بیان فرمادیا اور اس سے خبردار فرمادیا، اگر یہ ممکن ہی نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے خبردار کیوں فرماتے؟
7- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں یہ دعاء فرمائی کہ:
’’اللهُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِي وَثَنًا، لَعَنَ اللهُ قَوْمًا اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ ‘‘
[مسند احمد 7358 شیخ البانی نے تحذیر الساجد اور احکام الجنائز میں صحیح کہا ہے]
(اے اللہ میری قبر کو وثن نہ بنانا، اللہ تعالی نے لعنت فرمائی اس قوم پر جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنالیا) ۔
ایک اور روایت میں ہے:
’’اللهُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِي وَثَنًا يُعْبَدُ، اشْتَدَّ غَضَبُ اللهِ عَلَى قَوْمٍ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ‘‘
[مسند احمد 13/87]
(اے اللہ میری قبر کو وثن (بت مزار وغیرہ) نہ بنانا کہ جس کی عبادت کی جائے، اللہ تعالی کا شدید غضب نازل ہوا اس قوم پر جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنالیا تھا)۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امت پر اس شرک کا خطرہ لاحق تھا اسی لئے تو یہ دعاء فرمائی۔
8- سنن ابی داود میں حدیث 1746 میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قُبُورًا وَلَا تَجْعَلُوا قَبْرِي عِيدًا وَصَلُّوا عَلَيَّ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ تَبْلُغُنِي حَيْثُ كُنْتُم‘‘
[ صحیح ابی داود 2042 میں شیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے]
(اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ (یعنی وہاں بھی نفل نمازیں پڑھا کرو) اور نہ میری قبر کو عید (میلہ گاہ/عرس) بناؤ۔ کیونکہ تم جہاں کہیں سے مجھ پر درود پڑھو وہ مجھ تک (فرشتوں کے ذریعہ) پہنچا دیا جاتا ہے)۔
یعنی یہ ممکن بات ہے جو شرک کے ذرائع میں سے ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع فرمایا، کیا موجودہ دور کے مسلمان یہ کام مزاروں پر نہیں کرتے؟
9- مسند احمد حدیث 23630 :
’’عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ الشِّرْكُ الْأَصْغَر قَالُوا: وَمَا الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: الرِّيَاءُ‘‘
(محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے تم پر سب سے زیادہ خوف شرک اصغر کا ہے، پوچھا گیا شرک اصغر کیا ہے؟ فرمایا: ریاءکاری)۔
[شیخ البانی نے صحیح الترغیب والترھیب میں 32 اور صحیح الجامع 1555 میں صحیح کہا]
اگرچہ یہ شرک اصغر ہی صحیح مگر شرک کا خطرہ تو ہے، جس سے اس بات کی تخصیص ہوتی ہے کہ مجھے تم پر کسی بھی قسم کے شرک کا خطرہ نہیں۔
10- صحیح بخاری 1309 اور 5524:
’’عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَجُلًا قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ فَقَالَ الْقَوْمُ مَا لَهُ مَا لَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَبٌ مَا لَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعْبُدُ اللَّهَ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ وَتَصِلُ الرَّحِمَ ذَرْهَا قَالَ كَأَنَّهُ كَانَ عَلَى رَاحِلَتِهِ‘‘
(ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص (مسلمان) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت فرمایا کہ مجھے ایسے عمل کے متعلق خبر دیں کہ جو مجھے جنت میں داخل کردے۔ لوگوں نے کہا آخر یہ چاہتا کیا ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ تو بہت اہم ضرورت ہے۔ (سنو) اللہ تعالی کی عبادت کرو اور کسی کو بھی اس کے ساتھ شریک نہ کرو، اور نماز قائم کرو، اور زکوٰة ادا کرو، اور صلہ رحمی کرو (بس یہ اعمال تجھے جنت میں لے جائیں گے) چل اب نکیل چھوڑ دے۔راوی کہتا ہے شاید کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت اپنی اونٹنی پر سوار تھے (اسی لئے فرمایا اب نکیل چھوڑ دے))۔
اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک شخص جو کہ ظاہر بات ہے مسلمان تھا اسی لئے تو جنت کا سوال کررہا تھا کو بھی شرک نہ کرنے کی نصیحت فرمارہے ہیں۔
11- سنن ابی داود 3411 اور ترمذی 1539 میں روایت ہے:
’’عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الطِّيَرَةُ شِرْكٌ الطِّيَرَةُ شِرْكٌ ثَلَاثًا وَمَا مِنَّا إِلَّا وَلَكِنَّ اللَّهَ يُذْهِبُهُ بِالتَّوَكُّلِ‘‘
[ صحیح ابی داود 3910 میں شیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے]
(عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بدشگونی شرک ہے، بدشگونی شرک ہے، بدشگونی شرک ہے تین بار، ہم میں سے ہرکسی کو کچھ نہ کچھ ہوہی جاتی ہے مگر اللہ تعالی پرتوکل کرنے سے وہ دور ہوسکتی ہے)۔
(ہم میں سے ہرکسی کو کچھ نہ کچھ ہوہی جاتی ہے) یہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے بعض محققین علماء کرام کے نزدیک۔ اب ہم دیکھیں کہ کیا مسلمان بدشگونی نہیں لیتے جیسے کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو واپس لوٹ جاتے ہیں، یا الو یا کوا بولے تو بدشگونی لیتے ہیں وغیرہ حالانکہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شرک قرار دیا ہے۔
12- ’’عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ إِلَيْهِ رَهْطٌ ، فَبَايَعَ تِسْعَةً وَأَمْسَكَ عَنْ وَاحِدٍ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، بَايَعْتَ تِسْعَةً وَتَرَكْتَ هَذَا ؟ قَالَ: إِنَّ عَلَيْهِ تَمِيمَةً فَأَدْخَلَ يَدَهُ فَقَطَعَهَا، فَبَايَعَهُ، وَقَالَ: مَنْ عَلَّقَ تَمِيمَةً فَقَدْ أَشْرَكَ‘‘
[مسند احمد 17422 ، سلسلہ صحیحہ 1/889]
(عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ایک وفد آیا جن میں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نو(9) سے بیعت لی مگر ایک سے نہ لی، کہا گیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے نو سے تو بیعت لی مگر ایک سے نہ لی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس نے تعویذ پہن رکھا ہے، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست مبارک بڑھا کر اسے کاٹ ڈالا پھر بیعت فرمائی۔ اور فرمایا جس نے بھی تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا)۔
13- ’’عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ الرُّقَى وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ قَالَتْ قُلْتُ لِمَ تَقُولُ هَذَا وَاللَّهِ لَقَدْ كَانَتْ عَيْنِي تَقْذِفُ وَكُنْتُ أَخْتَلِفُ إِلَى فُلَانٍ الْيَهُودِيِّ يَرْقِينِي فَإِذَا رَقَانِي سَكَنَتْ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ إِنَّمَا ذَاكَ عَمَلُ الشَّيْطَانِ كَانَ يَنْخُسُهَا بِيَدِهِ فَإِذَا رَقَاهَا كَفَّ عَنْهَا إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكِ أَنْ تَقُولِي كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَذْهِبْ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا‘‘
[ سنن ابو داود 3385 اور صحیح ابو داود 3883 صحیح ابن ماجہ 2861 میں شیخ البانی نے صحیح کہا ہے]
(عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ بے شک (شرکیہ) دم جھاڑ، تعویذ گنڈے اور جنتر منتر (محبت کے لئے جادو) شرک ہیں۔ ان کی اہلیہ نے کہا آپ ایسا کس طرح سے کہہ سکتے حالانکہ اللہ کی قسم مجھے چشم آشوب (آنکھ میں تکلیف) تھی میں نے فلاں یہودی سے دم جھاڑ کروایا تو مجھے سکون حاصل ہوگیا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ تو شیطانی سازش ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے تمہاری آنکھ میں کچونکے مارتا تھا اور جب وہ (اس شیطان کا ساتھی یہودی جادوگر) دم کرتا تو وہ (منصوبے کے تحت) مارنا روک دیتا۔ حالانکہ تجھے یہ دعاء پڑھ لینا کافی تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھا کرتے تھے: تکلیف کو دور فرمادے لوگوں کے رب، شفاء عنایت فرما بے شک توہی شافی ہے، نہیں ہے کوئی شفاء مگر تیری شفاء، ایسی شفاء کے جو بیماری کو نہ چھوڑے (ختم کردے))۔
14- ’’عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ مَاتَ ابْنٌ لَهُ بِقُدَيْدٍ أَوْ بِعُسْفَانَ فَقَالَ يَا كُرَيْبُ انْظُرْ مَا اجْتَمَعَ لَهُ مِنَ النَّاسِ. قَالَ فَخَرَجْتُ فَإِذَا نَاسٌ قَدِ اجْتَمَعُوا لَهُ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ تَقُولُ هُمْ أَرْبَعُونَ قَالَ نَعَمْ. قَالَ أَخْرِجُوهُ فَإِنِّى سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « مَا مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ يَمُوتُ فَيَقُومُ عَلَى جَنَازَتِهِ أَرْبَعُونَ رَجُلاً لاَ يُشْرِكُونَ بِاللَّهِ شَيْئًا إِلاَّ شَفَّعَهُمُ اللَّهُ فِيهِ ».‘‘
[صحیح مسلم 2242 شاملہ، وحید الزمان ترجمہ 2199]
(ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ایک بیٹا قدیدیا عسفان میں فوت ہوگیا تو انہوں نے اپنے غلام کریب سے کہا کہ دیکھو کتنے لوگ جمع ہوئے ہیں(یعنی جنازہ کے لئے) کریب کہتے ہیں کہ میں گیا تو دیکھا کہ لوگ جمع ہیں میں نے اس کی خبر انہیں کردی، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا تمہارے اندازے میں وہ چالیس ہوں گے؟کریب نے کہا: ہاں۔فرمایا جنازہ نکالو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: جس مسلمان کے جنازے میں چالیس ایسے مسلمان شریک ہوں جو اللہ تعالی کے ساتھ شرک نہیں کرتے، تو اللہ تعالی اس میت کے حق میں ضرور ان کی شفاعت قبول فرمالیتا ہے)۔
اس سے بھی ثابت ہوا کہ ایسے بھی مسلمان ہیں جو شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں، اور میت کے شفاعت کے لئے خالص توحید پرست مسلمان درکار ہیں۔
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو ہر قسم کے شرک سے محفوظ فرمائے۔ اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاءبھی ہے اور وہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ایک مسلمان کو بھی شرک سے بے خوف نہیں ہونا چاہیے اور اللہ تعالی سے اس سے بچنے کے لئے مدد طلب کرتے رہنا چاہیے۔
’’خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا هَذَا الشِّرْكَ ؛ فَإِنَّهُ أَخْفَى مِنْ دَبِيبِ النَّمْلِ . فَقَالَ لَهُ: مَنْ شَاءَ اللهُ أَنْ يَقُولَ وَكَيْفَ نَتَّقِيهِ، وَهُوَ أَخْفَى مِنْ دَبِيبِ النَّمْلِ يَا رَسُولَ اللهِ ؟ قَالَ: قُولُوا:اللهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ نُشْرِكَ بِكَ شَيْئًا نَعْلَمُهُ، وَنَسْتَغْفِرُكَ لِمَا لَا نَعْلَمُ‘‘
[مسند احمد: 19606 ، شیخ البانی نے صحيح الجامع (3/233) رقم (3731) میں صحیح کہا ہے]
(ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن خطاب فرمایا کہ اے لوگو! اس شرک سے بچوکیونکہ یہ تو چیونٹی کی چال سے زیادہ مخفی ہوتا ہے(جو دھیمے سے انسان کے اندر آجاتا ہے) اس پر کہا گیاکہ جب حال یہ ہے تو پھر اس سےکیونکر بچا جاسکتا ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کہو (اے اللہ! ہم پناہ چاہتے ہیں کہ ہم تیرے ساتھ کسی چیز کو شریک کریں جانتے بوجھتے، اور مغفرت چاہتے ہیں ایسے شرک سے جسے ہم نہیں جانتے))۔
وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا۔